کب غیر ہوا محو تری جلوہ گری کا
تو پوچھ مرے دل سے مزہ بے خبری کا
سودا جو گل و لالہ کو ہے جیب دری کا
ادنیٰ یہ شگوفہ ہے نسیم سحری کا
کس نے لب بام آ کے دکھایا رخ روشن
خورشید میں ہے رنگ چراغ سحری کا
اپنی یہ غزل ہے کہ پرستان سخن ہے
پرواز مضامیں میں ہے انداز پری کا
کچھ کم نہیں نازک مرے مضمون کمر سے
شہرہ ہے بجا یار کی نازک کمری کا
اک رات بھی اے ماہ نہ جاگی مری قسمت
سنتا تھا بہت شور دعائے سحری کا
جس نے مجھے آگاہ کیا حال جہاں سے
کیا لطف جمادات کو ہے بے خبری کا
غربت میں ملا لطف کہیں بڑھ کے وطن سے
حاصل جو ہوا تجھ سے مزا ہم سفری کا
اس ماہ کی محفل میں جو ہے قہقہہ زن آج
ہوتا ہے بط مے پہ گماں کبک دری کا
قرآن کہے دیتا ہے کہ ہم حق کی زباں ہیں
ہوتا ہے جدا طور کلام بشری کا
آدم کی تو ماں بھی نہ تھی اے منکر اعجاز
عیسیٰ کو ملا صرف شرف بے پدری کا
سرو قد دلبر کی جو تصویر ہے دل پر
ہم سنگ نہیں لعل عقیق شجری کا
آنکھیں ہیں حسینوں کی ترے سبزۂ رخ پر
کیونکہ نہ ہو میلان غزالوں کو چری کا
چل تو بھی اثرؔ لے کے متاع دل بے تاب
وہ دیکھنے جاتے ہیں تماشا گزری کا
غزل
کب غیر ہوا محو تری جلوہ گری کا
امداد امام اثرؔ