EN हिंदी
کب دل کے آئنے میں وہ منظر نہیں رہا | شیح شیری
kab dil ke aaine mein wo manzar nahin raha

غزل

کب دل کے آئنے میں وہ منظر نہیں رہا

جمال احسانی

;

کب دل کے آئنے میں وہ منظر نہیں رہا
آنکھوں کے سامنے جو کہ پل بھر نہیں رہا

پیروں تلے زمین نہیں تھی تو جی لئے
لیکن اب آسمان بھی سر پر نہیں رہا

تیرے خیال میں کبھی اس طرح کھو گئے
تیرا خیال بھی ہمیں اکثر نہیں رہا

وہ قحط سنگ ہے سر ساحل کہ الاماں
پانی میں پھینکنے کو بھی پتھر نہیں رہا

آگاہ کیا ہوئے ہیں سرابوں سے ہم جمالؔ
سطح زمیں پہ کوئی سمندر نہیں رہا