EN हिंदी
کب اہل عشق تمہارے تھے اس قدر گستاخ | شیح شیری
kab ahl-e-ishq tumhaare the is qadar gustaKH

غزل

کب اہل عشق تمہارے تھے اس قدر گستاخ

نوح ناروی

;

کب اہل عشق تمہارے تھے اس قدر گستاخ
انہیں تمہیں نے کیا چھیڑ چھیڑ کر گستاخ

بہم یہ جمع ہوئے خوب ادھر ادھر گستاخ
کہ دل بھی میرا ہے تیری بھی ہے نظر گستاخ

ہمیں ملا بھی تو معشوق کس طرح کا ملا
جفا پسند بد اخلاق فتنہ گر گستاخ

ہم اپنے دل سے محبت میں بے خبر نہ رہیں
کہ ہے بہت کسی گستاخ کی نظر گستاخ

کسی نے مجھ کو رلایا کوئی ہنسا مجھ پر
جو تو ہوا تو ہوا تیرا گھر کا گھر گستاخ

کہا تھا میں نے کہ دل کو سزائیں آپ نہ دیں
یہ پیشتر سے ہوا اور بیشتر گستاخ

ادب سے کام وہ لیتے نہیں سر محفل
یوں ہی ہو اور کوئی دوسرا اگر گستاخ

ہم اور ذکر محبت دل اور شکوۂ غم
خموشیوں نے تمہاری کیا مگر گستاخ

مجھے جواب یہ قبل از سوال دینے لگا
اب اس سے ہوگا سوا کیا پیامبر گستاخ

دل و نظر کو لحاظ و حیا سے کیا مطلب
یہ بے ادب ہے سراسر وہ سر بسر گستاخ

کبھی کبھی جو تری شرمگیں نگاہ ملے
تو میں بناؤں اسے چھیڑ چھیڑ کر گستاخ

یہ تجربے نے بتایا یہ عادتوں سے کھلا
وہ جس قدر ہے مہذب اسی قدر گستاخ

کہیں تمہیں بھی ڈبو دے نہ بحر الفت میں
بہت ہے نوح کا طوفان چشم تر گستاخ