کاٹ رہا ہوں اک اک دن آزار کے ساتھ
جیسے رات گزرتی ہے بیمار کے ساتھ
شہرت تنہا طے کرتی ہے رستے کو
اڑ کر پھول نہیں جاتا مہکار کے ساتھ
ہجر کا موسم لے کر سورج نکلا ہے
برف لپٹ کر روتی ہے کہسار کے ساتھ
گھر کی ہر شے تیری یاد دلاتی ہے
دھیان میں چڑیا آ جائے چہکار کے ساتھ
ایک ہی جھونکا بکھرا دے گا پتوں کو
کب تک مل کر بیٹھیں گے دیوار کے ساتھ
وقت نے لکھ کر کاٹ دیے ہیں ان کے نام
جن کا سکہ چلتا تھا تلوار کے ساتھ
خاورؔ کیا کیا شکلیں بنتی رہتی ہیں
تنہائی میں یادوں کی پرکار کے ساتھ
غزل
کاٹ رہا ہوں اک اک دن آزار کے ساتھ
خاقان خاور