کاٹ گئی کہرے کی چادر سرد ہوا کی تیزی ماپ
اکڑوں بیٹھا اس وادی کی تنہائی میں تھر تھر کانپ
مرمر کی اونچائی چڑھتے پھسلا ہے تو رونا کیا
پاؤں پسارے کیچڑ میں اکھڑی سانسوں کی مالا جاپ
اڑتے پنچھی پیاسی نظروں کی پہچان سے عاری ہیں
تیز ہوئی جاتی ہیں کرنیں تھاپ سہیلی گوبر تھاپ
پھوٹی چوڑی ٹوٹی دھنک رنگوں کا سحر بکھرتا سا
سونے افق پر بہتے بادل گرم توے سے اٹھتی بھاپ
بانسوں کے جنگل کی چلمن حسن جھلکتا منزل کا
بڑھتے ہوئے قدموں کی تاک میں سوکھے ہوئے پتوں پر سانپ
گرم سفر ہے گرم سفر رہ مڑ مڑ کر مت پیچھے دیکھ
ایک دو منزل ساتھ چلے گی پٹکے ہوئے قدموں کی چاپ
جھوم رہی ہے بھنور میں کشتی ساحل و طوفاں رقص میں ہیں
تھکی ہوئی آنکھیں سو جائیں ایسا کوئی راگ الاپ
دیکھ پھپھوند لگی دیواریں مجلس بھی بن سکتی ہیں
طوفانی موسم ہے شفیقؔ اب اور کہیں کا رستہ ناپ
غزل
کاٹ گئی کہرے کی چادر سرد ہوا کی تیزی ماپ
احسن شفیق