EN हिंदी
کاش اٹھیں ہم بھی گنہ گاروں کے بیچ | شیح شیری
kash uThen hum bhi gunahgaron ke bich

غزل

کاش اٹھیں ہم بھی گنہ گاروں کے بیچ

میر تقی میر

;

کاش اٹھیں ہم بھی گنہ گاروں کے بیچ
ہوں جو رحمت کے سزاواروں کے بیچ

جی سدا ان ابروؤں ہی میں رہا
کی بسر ہم عمر تلواروں کے بیچ

چشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر
منہ نظر آتا ہے دیواروں کے بیچ

ہیں عناصر کی یہ صورت بازیاں
شعبدے کیا کیا ہیں ان چاروں کے بیچ

جب سے لے نکلا ہے تو یہ جنس حسن
پڑ گئی ہے دھوم بازاروں کے بیچ

عاشقی و بیکسی و رفتگی
جی رہا کب ایسے آزاروں کے بیچ

جو سرشک اس ماہ بن جھمکے ہے شب
وہ چمک کاہے کو ہے تاروں کے بیچ

اس کے آتش ناک رخساروں بغیر
لوٹیے یوں کب تک انگاروں کے بیچ

بیٹھنا غیروں میں کب ہے ننگ یار
پھول گل ہوتے ہی ہیں خاروں کے بیچ

یارو مت اس کا فریب مہر کھاؤ
میرؔ بھی تھے اس کے ہی یاروں کے بیچ