کاش اقرار کر لیا ہوتا
دو گھڑی پیار کر لیا ہوتا
ہاں وہی زندگی کا مقصد تھا
اس سے اظہار کر لیا ہوتا
گر چراغوں میں خون باقی تھا
شب کو تلوار کر لیا ہوتا
زندہ رہنے کا اک وسیلہ تھا
غم طرحدار کر لیا ہوتا
کوئی شکوہ نہیں تپشؔ تم سے
ورنہ سرکار کر لیا ہوتا
غزل
کاش اقرار کر لیا ہوتا
مونی گوپال تپش