EN हिंदी
کاش ہوتی نہ یہ خطا ہم سے | شیح شیری
kash hoti na ye KHata humse

غزل

کاش ہوتی نہ یہ خطا ہم سے

ہنس راج سچدیو حزیںؔ

;

کاش ہوتی نہ یہ خطا ہم سے
کیوں ہوئی عرض مدعا ہم سے

اک تری یاد کا سہارا تھا
وہ بھی اب ہو گئی جدا ہم سے

عمر گزری منانے میں ان کے
وہ خفا سے رہے سدا ہم سے

ٹوٹ کر ہی رہا دل ناداں
کوئی چارہ نہ ہو سکا ہم سے

منزل شوق مل چکی ان کو
مل گئے جن کو رہنما ہم سے

پھول توڑے ہیں آپ نے لیکن
خار الجھے ہیں بارہا ہم سے

جان عالم تجھے حزیںؔ کی قسم
اب نہ ہونا کبھی خفا ہم سے