کاش ہوتی نہ یہ خطا ہم سے
کیوں ہوئی عرض مدعا ہم سے
اک تری یاد کا سہارا تھا
وہ بھی اب ہو گئی جدا ہم سے
عمر گزری منانے میں ان کے
وہ خفا سے رہے سدا ہم سے
ٹوٹ کر ہی رہا دل ناداں
کوئی چارہ نہ ہو سکا ہم سے
منزل شوق مل چکی ان کو
مل گئے جن کو رہنما ہم سے
پھول توڑے ہیں آپ نے لیکن
خار الجھے ہیں بارہا ہم سے
جان عالم تجھے حزیںؔ کی قسم
اب نہ ہونا کبھی خفا ہم سے

غزل
کاش ہوتی نہ یہ خطا ہم سے
ہنس راج سچدیو حزیںؔ