EN हिंदी
کاش ایسی بھی کوئی ساعت ہو | شیح شیری
kash aisi bhi koi saat ho

غزل

کاش ایسی بھی کوئی ساعت ہو

سیدہ نفیس بانو شمع

;

کاش ایسی بھی کوئی ساعت ہو
روبرو آپ ہی کی صورت ہو

سوچتی ہوں تو دل دھڑکتا ہے
تم مرے جسم کی حرارت ہو

کتنے سجدوں کا قرض ہے مجھ پر
سر جھکا لوں اگر اجازت ہو

نیند آنکھوں میں اس لیے آئی
ان کے آنے کی کب بشارت ہو

مجھ کو بھیجا گیا ہے یہ کہہ کر
تم مرے عشق کی امانت ہو

ہم بھی کر لیں نماز کی نیت
حسن والے تری امامت ہو

ترک دنیا کروں گی جب میں بھی
سامنے میرے جام وحدت ہو

ہجر کی شب میں وصل کا لمحہ
اب تو ہر دن یہی کرامت ہو

یوں پگھلنے سے کچھ نہیں حاصل
شمعؔ جلنا تری محبت ہو