کاش ایسی بھی کوئی ساعت ہو
روبرو آپ ہی کی صورت ہو
سوچتی ہوں تو دل دھڑکتا ہے
تم مرے جسم کی حرارت ہو
کتنے سجدوں کا قرض ہے مجھ پر
سر جھکا لوں اگر اجازت ہو
نیند آنکھوں میں اس لیے آئی
ان کے آنے کی کب بشارت ہو
مجھ کو بھیجا گیا ہے یہ کہہ کر
تم مرے عشق کی امانت ہو
ہم بھی کر لیں نماز کی نیت
حسن والے تری امامت ہو
ترک دنیا کروں گی جب میں بھی
سامنے میرے جام وحدت ہو
ہجر کی شب میں وصل کا لمحہ
اب تو ہر دن یہی کرامت ہو
یوں پگھلنے سے کچھ نہیں حاصل
شمعؔ جلنا تری محبت ہو
غزل
کاش ایسی بھی کوئی ساعت ہو
سیدہ نفیس بانو شمع