کارواں تیرہ شب میں چلتے ہیں
آندھیوں میں چراغ جلتے ہیں
لاکھ زنداں ہوں لاکھ دار و رسن
اب ارادے کہیں بدلتے ہیں
کس ادا سے سحر کے دیوانے
سرخ پرچم لیے نکلتے ہیں
روک سکتا ہے کیا انہیں صیاد
جو قفس توڑ کر نکلتے ہیں
کتنی صدیوں سے ذہن انساں میں
رنگ و نکہت کے خواب پلتے ہیں
غزل
کارواں تیرہ شب میں چلتے ہیں
عرشی بھوپالی