کارواں لٹ گیا راہبر چھٹ گیا رات تاریک ہے غم کا یارا نہیں
راہ میں بھی کوئی شمع جلتی نہیں آسماں پر بھی کوئی ستارا نہیں
یہ بہار و خزاں یہ خوشی اور غم یہ حسیں نازنیں دل کے پتھر صنم
سب سہارے ہیں بس چار دن کے لیے زندگی بھر کا کوئی سہارا نہیں
میری غیرت مری آن کا امتحاں تیری سازش پہ بھاری ہے اے باغباں
جان دے دوں ابھی یہ تو منظور ہے گلستاں چھوڑ دوں یہ گوارا نہیں
گھٹ گئی یا تو ذوق سفر کی لگن بڑھ گئی یا نئی لغزشوں سے تھکن
کوئی تو بات ہے جو سر رہگزر آج منزل نے ہم کو پکارا نہیں
تم ہو مختار یہ دل کی آواز ہے آخر اس بات میں کون سا راز ہے
جس کو نسبت تمہارے ہی در سے رہی وہ مقدر بھی تم نے سنوارا نہیں
اس سے بڑھ کر کوئی اور کیسے جیے عمر بھر ہم نے اک بے وفا کے لیے
کون سی رات آنکھوں میں کاٹی نہیں کون سا دن تڑپ کر گزارا نہیں
راس آئے جسے اس کو آسان ہے عشق کی ورنہ ہر موج طوفان ہے
اے صباؔ ایک دریا ہے یہ آگ کا وہ بھی ایسا کہ جس کا کنارا نہیں
غزل
کارواں لٹ گیا راہبر چھٹ گیا رات تاریک ہے غم کا یارا نہیں
صبا افغانی