کاروباری شہروں میں ذہن و دل مشینیں ہیں جسم کارخانہ ہے
جس کی جتنی آمدنی اتنا ہی بڑا اس کے حرص کا دہانہ ہے
یہ شعور زادے جو منفعت گزیدہ ہیں حیف ان کی نظروں میں
بے غرض ملاقاتیں اور خلوص کی باتیں فعل احمقانہ ہے
اپنی ذات سے قربت اپنے نام سے نسبت اپنے کام سے رغبت
اپنا خول ہی ان کا خطۂ مراسم ہے کوئے دوستانہ ہے
ہر خوشی کی محفل میں قہقہے لٹاتے ہیں خود ہی لوٹتے بھی ہیں
غم کی مجلسوں میں بھی سب کا اپنا اپنا سر اپنا اپنا شانہ ہے
جن بلند شاخوں پر نرم رو ہوائیں ہیں بجلیوں کا ڈر بھی ہے
ارتقا کے جنگل میں حادثات کی زد پر سب کا آشیانہ ہے
طرز باغبانی میں شدت نمو خیزی کیسے گل کھلائے گی
نیم وا شگوفوں کے رنگ دل فریبی میں بوئے تاجرانہ ہے
جگمگاتے بام و در جھلملاتے روزن ہیں چمچاتی دہلیزیں
ظاہری چمک عازمؔ طرۂ شرافت ہے رونق زمانہ ہے
غزل
کاروباری شہروں میں ذہن و دل مشینیں ہیں جسم کارخانہ ہے
عین الدین عازم