EN हिंदी
کار مشکل ہی کیا دنیا میں گر میں نے کیا | شیح شیری
kar-e-mushkil hi kiya duniya mein gar maine kiya

غزل

کار مشکل ہی کیا دنیا میں گر میں نے کیا

صدیق شاہد

;

کار مشکل ہی کیا دنیا میں گر میں نے کیا
پر نہ اس بے رحم کے دل میں گزر میں نے کیا

دل میں لیلائے تمنا پاؤں چھلنی تیز دھوپ
کس قیامت کا سفر تھا جو سفر میں نے کیا

تیرا اپنا راستہ تھا میرا اپنا راستہ
اس پہ بھی اے زندگی تجھ کو بسر میں نے کیا

مسکرا کر اس نے جب باہیں گلے میں ڈال دیں
پھر جو اس سے رنج تھا صرف نظر میں نے کیا

زندہ تھے دشمن تو مجھ کو بازوؤں پہ ناز تھا
آنکھ کو ان کے گزر جانے پہ تر میں نے کیا

چشم کم سے دیکھتا تھا مجھ کو آخر ایک دن
اس کے زعم خام کو زیر و زبر میں نے کیا

حرف اس کے قامت تحسیں پہ سجتے ہی گئے
شاہدؔ ان کو اس طرح حرف ہنر میں نے کیا