کار دنیا کے تقاضوں کو نبھانے میں کٹی
زندگی ریت کی دیوار اٹھانے میں کٹی
اب بھی روشن ہے ترے دل میں محبت کا دیا
رات پھر شمع یقیں ساز جلانے میں کٹی
تشنگی وہ تھی کوئی کار وفا ہو نہ سکا
عمر بے مایہ فقط پیاس بجھانے میں کٹی
ساعت وصل جو دیکھے تھے خد و خال ترے
ہجر کی شب وہی تصویر بنانے میں کٹی
ایک انگشت شہادت کہ ابھی باقی تھی
وہ بھی اس بار تری سمت اٹھانے میں کٹی
غزل
کار دنیا کے تقاضوں کو نبھانے میں کٹی
عبید صدیقی