کار افزائش انوار سحر کس نے کیا
صرف آفاق مرا رخت سفر کس نے کیا
بے ہنر تجھ سے مرا عجز ہنر پوچھتا ہے
مجھ کو معتوب سر شہر ہنر کس نے کیا
دہر فانی میں فقط اہل قناعت کے سوا
زندگی تجھ کو بہرحال بسر کس نے کیا
اے مرے جذب انا تیری بقا کی خاطر
اپنی تکمیل سے اس طور حذر کس نے کیا
تو کہ اک ذرۂ ناچیز تھا اے حسن مآب
تجھ کو ہم پایۂ خورشید و قمر کس نے کیا
آج بھی دنگ ہے رفتار زمانہ اس پر
ایک پل میں کئی قرنوں کا سفر کس نے کیا
سوچتا ہوں فقط اس دور کے انساں کے لیے
حسرت و یاس کے موسم کو امر کس نے کیا
محو حیرت ہے تحیر بھی جہاں پر تابشؔ
ایسے بے آب و گیہ دشت کو گھر کس نے کیا

غزل
کار افزائش انوار سحر کس نے کیا
معین تابش