کانٹوں میں ہی کچھ ظرف سماعت نظر آئے
گلشن میں کہیں تو میری روداد سنی جائے
اس کارگہ شیشہ میں آئینہ ہوں میں بھی
چہرہ نہیں کوئی تو کوئی سنگ ہی آئے
گلگشت کا اب ذوق نہ کچھ قدر بہاراں
اک عمر سے ہوں زخموں کا گل زار سجائے
منزل کا ہے امکاں نہ کوئی ختم سفر کا
اس آبلہ پائی کو کوئی نام دیا جائے
اس وادی کہسار میں پتھر ہی نہیں ہیں
ہے اور بہت کچھ بھی کسی کو تو نظر آئے
ہاں تیز بہت تیز ہے اب وقت کی رفتار
اس دل کا کروں کیا کہ جو چل پائے نہ رک پائے
تانبے سی زمیں اور سوا نیزے پہ سورج
تقدیر نے یوں حشر کے آثار دکھائے
اک گرد مسافت تھی جو چہرے سے نہ اتری
ویسے تو یہاں ہم نے کئی شہر بسائے
امدادؔ نظامی نہ سخنور تھے نہ شاعر
کچھ زخم امانت تھے کسی کی وہی لے آئے

غزل
کانٹوں میں ہی کچھ ظرف سماعت نظر آئے
امداد نظامی