کانٹے ہوں یا پھول اکیلے چننا ہوگا
ہم جیسا محتاط ہمیشہ تنہا ہوگا
فکر و تردد میں ہر دم کیا گھلتے رہنا
ہوگا تو بس وہ ہی جو کچھ ہونا ہوگا
اس سے کیا کہنا ہے پہلے یہ تو طے ہو
پھر سوچیں گے کیا انجام ہمارا ہوگا
جن میں کھو کر ہم خود کو بھی بھول گئے ہیں
کیا ہم کو بھی ان آنکھوں نے ڈھونڈا ہوگا
پتھریلی دھرتی ہے انکر کیا پھوٹیں گے
بے شک بادل ٹوٹ کے ان پر برسا ہوگا
تیشے اور جنوں کی باتیں بس باتیں ہیں
کون بھلا مرتا ہے کون دوانہ ہوگا
میری طرح ٹوٹے آئینے میں اس نے بھی
ٹکڑے ٹکڑے اپنے آپ کو پایا ہوگا
تیری تو بلقیسؔ نرالی ہی باتیں ہیں
اس دنیا میں کیسے ترا گزارا ہوگا
غزل
کانٹے ہوں یا پھول اکیلے چننا ہوگا
بلقیس ظفیر الحسن