کاندھوں سے زندگی کو اترنے نہیں دیا
اس موت نے کبھی مجھے مرنے نہیں دیا
پوچھا تھا آج میرے تبسم نے اک سوال
کوئی جواب دیدۂ تر نے نہیں دیا
تجھ تک میں اپنے آپ سے ہو کر گزر گیا
رستہ جو تیری راہ گزرنے نہیں دیا
کتنا عجیب میرا بکھرنا ہے دوستو
میں نے کبھی جو خود کو بکھرنے نہیں دیا
ہے امتحان کون سا صحرائے زندگی
اب تک جو تیرے خاک بسر نے نہیں دیا
یارو امیرؔ امام بھی اک آفتاب تھا
پر اس کو تیرگی نے ابھرنے نہیں دیا

غزل
کاندھوں سے زندگی کو اترنے نہیں دیا
امیر امام