EN हिंदी
کام کچھ ایسے کر گیا ہوں میں | شیح شیری
kaam kuchh aise kar gaya hun main

غزل

کام کچھ ایسے کر گیا ہوں میں

ترکش پردیپ

;

کام کچھ ایسے کر گیا ہوں میں
اپنی آنکھوں کو بھر گیا ہوں میں

زندگی تجھ سے بات کرنی ہے
زندگی تجھ سے ڈر گیا ہوں میں

اب تو میں اور بھی برا ہوں کہ
اب زیادہ سدھر گیا ہوں میں

اس سے کہہ دو کہ وہ نہیں روئے
اس سے کہہ دو کہ مر گیا ہوں میں

یاں تو کوئی ہوا نہیں آتی
یہ کہاں پر بکھر گیا ہوں میں

ذات پوچھو تو ایک شاعر ہوں
اپنی ہی ذات پر گیا ہوں میں