کام اتنے ہیں کہ آرام نہیں جانتے ہیں
لوگ یہ سب سے اہم کام نہیں جانتے ہیں
فیس بک پر ہیں مرے جاننے والے لاکھوں
میرے ہم سایے مرا نام نہیں جانتے ہیں
عشق میں ذہن کو تکلیف نہ دی دل کی سنی
ہم اسی واسطے انجام نہیں جانتے ہیں
ہمیں بس اتنا پتا ہے کہ خدا ہوتا ہے
ہم ان اقسام کی اقسام نہیں جانتے ہیں
سب نے سگریٹ کی طرح منہ سے لگا لی دنیا
ہے نشہ اتنا کہ انجام نہیں جانتے ہیں
دے تو سکتے ہیں سبھی جان خدا کی خاطر
پر خداوند کے احکام نہیں جانتے ہیں
میں کہ لوگوں میں بہت کم ہی رہا ہوں ذیشانؔ
اس لیے لوگ مجھے عام نہیں جانتے ہیں
غزل
کام اتنے ہیں کہ آرام نہیں جانتے ہیں
ذیشان ساجد