کام ہر زخم نے مرہم کا کیا ہو جیسے
اب کسی سے کوئی شکوہ نہ گلا ہو جیسے
عمر بھر عشق کو غم دیدہ نہ رکھے کیوں کر
حادثہ وہ کہ ابھی کل ہی ہوا ہو جیسے
ایک مدت ہوئی دیکھا تھا جسے پہلے پہل
تیرے چہرے میں وہی چہرہ چھپا ہو جیسے
حسن کے بھید کا پا لینا نہیں ہے آساں
ہے یہ وہ راز کہ رازوں میں پلا ہو جیسے
دور تک ایک نگہ جا کے ٹھہر جاتی ہے
وقت کا فاصلہ کچھ ڈھونڈ رہا ہو جیسے
یاد ماضی سے یہ افسردہ سی رونق دل میں
آخر شب کوئی دروازہ کھلا ہو جیسے
ہزل کو لوگ سحرؔ آج غزل کہتے ہیں
ذوق شعری پہ برا وقت پڑا ہو جیسے
غزل
کام ہر زخم نے مرہم کا کیا ہو جیسے
ابو محمد سحر