EN हिंदी
کام ہر زخم نے مرہم کا کیا ہو جیسے | شیح شیری
kaam har zaKHm ne marham ka kiya ho jaise

غزل

کام ہر زخم نے مرہم کا کیا ہو جیسے

ابو محمد سحر

;

کام ہر زخم نے مرہم کا کیا ہو جیسے
اب کسی سے کوئی شکوہ نہ گلا ہو جیسے

عمر بھر عشق کو غم دیدہ نہ رکھے کیوں کر
حادثہ وہ کہ ابھی کل ہی ہوا ہو جیسے

ایک مدت ہوئی دیکھا تھا جسے پہلے پہل
تیرے چہرے میں وہی چہرہ چھپا ہو جیسے

حسن کے بھید کا پا لینا نہیں ہے آساں
ہے یہ وہ راز کہ رازوں میں پلا ہو جیسے

دور تک ایک نگہ جا کے ٹھہر جاتی ہے
وقت کا فاصلہ کچھ ڈھونڈ رہا ہو جیسے

یاد ماضی سے یہ افسردہ سی رونق دل میں
آخر شب کوئی دروازہ کھلا ہو جیسے

ہزل کو لوگ سحرؔ آج غزل کہتے ہیں
ذوق شعری پہ برا وقت پڑا ہو جیسے