کام آخر جذبۂ بے اختیار آ ہی گیا 
دل کچھ اس صورت سے تڑپا ان کو پیار آ ہی گیا 
جب نگاہیں اٹھ گئیں اللہ ری معراج شوق 
دیکھتا کیا ہوں وہ جان انتظار آ ہی گیا 
ہائے یہ حسن تصور کا فریب رنگ و بو 
میں یہ سمجھا جیسے وہ جان بہار آ ہی گیا 
ہاں سزا دے اے خدائے عشق اے توفیق غم 
پھر زبان بے ادب پر ذکر یار آ ہی گیا 
اس طرح خوش ہوں کسی کے وعدۂ فردا پہ میں 
در حقیقت جیسے مجھ کو اعتبار آ ہی گیا 
ہائے کافر دل کی یہ کافر جنوں انگیزیاں 
تم کو پیار آئے نہ آئے مجھ کو پیار آ ہی گیا 
درد نے کروٹ ہی بدلی تھی کہ دل کی آڑ سے 
دفعتاً پردہ اٹھا اور پردہ دار آ ہی گیا 
دل نے اک نالہ کیا آج اس طرح دیوانہ وار 
بال بکھرائے کوئی مستانہ وار آ ہی گیا 
جان ہی دے دی جگرؔ نے آج پائے یار پر 
عمر بھر کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا
 
        غزل
کام آخر جذبۂ بے اختیار آ ہی گیا
جگر مراد آبادی

