کام آئی عشق کی دیوانگی کل رات کو
حسن نے بخشی متاع دوستی کل رات کو
قامت دل کش لباس سرخ میں تھی میہماں
میرے گھر اک سرخ مخمل کی پری کل رات کو
تمتمائے گال بھیگے ہونٹ چشم نیم وا
تھی مجسم جیسے میری شاعری کل رات کو
وہ مرے شانہ بہ شانہ صحن میں محو خرام
چاند کے پہلو میں جیسے چاندنی کل رات کو
نرم بانہوں سے مرے شانوں سے کچھ سازش ہوئی
پڑ گئی گردن میں موتی کی لڑی کل رات کو
شب کے سناٹے میں پیمان وفا باندھے گئے
کچھ نئے وعدوں نے کی جادوگری کل رات کو
ہر گھڑی صوفیؔ نشاط انگیز لمحوں میں کٹی
زندگی تھی در حقیقت زندگی کل رات کو
غزل
کام آئی عشق کی دیوانگی کل رات کو
صغیر احمد صوفی