EN हिंदी
کالی غزل سنو نہ سہانی غزل سنو | شیح شیری
kali ghazal suno na suhani ghazal suno

غزل

کالی غزل سنو نہ سہانی غزل سنو

ابو محمد سحر

;

کالی غزل سنو نہ سہانی غزل سنو
موسم یہ کہہ رہا ہے کہ دھانی غزل سنو

جاگا وہ درد دل میں کہ آنسو نکل پڑے
برسا ہے آج ٹوٹ کے پانی غزل سنو

افسانۂ جنوں نہیں پابند ماہ و سال
یاد آ رہا ہے دور جوانی غزل سنو

اپنی تمام عقل پرستی کے باوجود
یہ زندگی ہے اب بھی دوانی غزل سنو

یوں تو سخن کے اور بھی پیرائے ہیں مگر
کہنی ہے ہم کو دل کی کہانی غزل سنو

ہوں زخم عشق یا کہ زمانے کے درد و داغ
ہر غم یہاں ہے دشمن جانی غزل سنو

خون جگر میں فکر کی گہرائیاں بھی ہیں
گر ہے مزاج فلسفہ دانی غزل سنو

سر پر ہوائے سنگ ملامت چلی بہت
لیکن غزل نے ہار نہ مانی غزل سنو

زیب شفق ہے نوع بشر کا لہو سحرؔ
ہر شے ہے اس جہان کی فانی غزل سنو