EN हिंदी
کاغذ قلم دوات کے اندر رک جاتا ہے | شیح شیری
kaghaz qalam dawat ke andar ruk jata hai

غزل

کاغذ قلم دوات کے اندر رک جاتا ہے

اسناتھ کنول

;

کاغذ قلم دوات کے اندر رک جاتا ہے
جو لمحہ اس ذات کے اندر رک جاتا ہے

سورج دن بھر زہر اگلتا رہتا ہے
چاند کا زعم بھی رات کے اندر رک جاتا ہے

پہلے سانس جما دیتا ہے ہونٹوں پر
پھر وہ اپنی گھات کے اندر رک جاتا ہے

نکل نہیں سکتا دھرتی کا بنجر پن
جو قطرہ برسات کے اندر رک جاتا ہے

حرف کا دیپ ہوا سے کیسے الجھے گا
یہ نقطہ ہر بات کے اندر رک جاتا ہے

ہجر کا موسم خاموشی اور رات کا ڈر
یادوں کی بارات کے اندر رک جاتا ہے