کاغذ قلم دوات کے اندر رک جاتا ہے
جو لمحہ اس ذات کے اندر رک جاتا ہے
سورج دن بھر زہر اگلتا رہتا ہے
چاند کا زعم بھی رات کے اندر رک جاتا ہے
پہلے سانس جما دیتا ہے ہونٹوں پر
پھر وہ اپنی گھات کے اندر رک جاتا ہے
نکل نہیں سکتا دھرتی کا بنجر پن
جو قطرہ برسات کے اندر رک جاتا ہے
حرف کا دیپ ہوا سے کیسے الجھے گا
یہ نقطہ ہر بات کے اندر رک جاتا ہے
ہجر کا موسم خاموشی اور رات کا ڈر
یادوں کی بارات کے اندر رک جاتا ہے
غزل
کاغذ قلم دوات کے اندر رک جاتا ہے
اسناتھ کنول