کاغذ پہ تیرا نقش اتارا نہیں گیا
مجھ سے کوئی خیال سنوارا نہیں گیا
مل کے لگا ہے آج زمانے ٹھہر گئے
تجھ سے بچھڑ کے وقت گزارا نہیں گیا
طوفان میں بھی ڈوب نہ پائی مری انا
ڈوبا مگر کسی کو پکارا نہیں گیا
خوشیوں کے قہقہے ہیں ہر اک سمت گونجتے
لگتا ہے کوئی شہر میں مارا نہیں گیا
انسان وحشیوں کی طرح ہیں کہ آج تک
مفہوم زندگی کا ابھارا نہیں گیا
آرائش جمال کسی کام کی نہیں
روئے عمل کو جب کہ نکھارا نہیں گیا
غزل
کاغذ پہ تیرا نقش اتارا نہیں گیا
طاہرہ جبین تارا