EN हिंदी
کاغذ کی پلیٹوں میں کھانے کا تقاضہ ہے | شیح شیری
kaghaz ki paleTon mein khane ka taqaza hai

غزل

کاغذ کی پلیٹوں میں کھانے کا تقاضہ ہے

خالد عرفان

;

کاغذ کی پلیٹوں میں کھانے کا تقاضہ ہے
حالات کے شانے پہ کلچر کا جنازہ ہے

ملنے کی گزارش پر مبہم سا جواب آیا
چونکہ ہے چنانچہ ہے گرچہ ہے لہٰذا ہے

اب گھر کے دریچے میں آئے گی ہوا کیسے
آگے بھی پلازہ ہے پیچھے بھی پلازا ہے

تم عقد مسلسل سے دادا کو نہیں روکو
شادی کی ضرورت تو فطرت کا تقاضا ہے

دولت کا ذرا سا بھی عزت سے نہیں رشتہ
اللہ نے لیڈر کو دولت سے نوازا ہے

معیار امارت سے شعروں کو نہیں ناپو
روٹی مری باسی ہے لہجہ مرا تازہ ہے