کاغذ کی پلیٹوں میں کھانے کا تقاضہ ہے
حالات کے شانے پہ کلچر کا جنازہ ہے
ملنے کی گزارش پر مبہم سا جواب آیا
چونکہ ہے چنانچہ ہے گرچہ ہے لہٰذا ہے
اب گھر کے دریچے میں آئے گی ہوا کیسے
آگے بھی پلازہ ہے پیچھے بھی پلازا ہے
تم عقد مسلسل سے دادا کو نہیں روکو
شادی کی ضرورت تو فطرت کا تقاضا ہے
دولت کا ذرا سا بھی عزت سے نہیں رشتہ
اللہ نے لیڈر کو دولت سے نوازا ہے
معیار امارت سے شعروں کو نہیں ناپو
روٹی مری باسی ہے لہجہ مرا تازہ ہے
غزل
کاغذ کی پلیٹوں میں کھانے کا تقاضہ ہے
خالد عرفان