کافر ہوں سر پھرا ہوں مجھے مار دیجئے
میں سوچنے لگا ہوں مجھے مار دیجئے
ہے احترام حضرت انسان میرا دین
بے دین ہو گیا ہوں مجھے مار دیجئے
میں پوچھنے لگا ہوں سبب اپنے قتل کا
میں حد سے بڑھ گیا ہوں مجھے مار دیجئے
کرتا ہوں اہل جبہ و دستار سے سوال
گستاخ ہو گیا ہوں مجھے مار دیجئے
خوشبو سے میرا ربط ہے جگنو سے میرا کام
کتنا بھٹک گیا ہوں مجھے مار دیجئے
معلوم ہے مجھے کہ بڑا جرم ہے یہ کام
میں خواب دیکھتا ہوں مجھے مار دیجئے
زاہد یہ زہد و تقویٰ و پرہیز کی روش
میں خوب جانتا ہوں مجھے مار دیجئے
بے دین ہوں مگر ہیں زمانے میں جتنے دین
میں سب کو مانتا ہوں مجھے مار دیجئے
پھر اس کے بعد شہر میں ناچے گا ہو کا شور
میں آخری صدا ہوں مجھے مار دیجئے
میں ٹھیک سوچتا ہوں کوئی حد میرے لیے
میں صاف دیکھتا ہوں مجھے مار دیجئے
یہ ظلم ہے کہ ظلم کو کہتا ہوں صاف ظلم
کیا ظلم کر رہا ہوں مجھے مار دیجئے
زندہ رہا تو کرتا رہوں گا ہمیشہ پیار
میں صاف کہہ رہا ہوں مجھے مار دیجئے
جو زخم بانٹتے ہیں انہیں زیست پہ ہے حق
میں پھول بانٹتا ہوں مجھے مار دیجئے
بارود کا نہیں مرا مسلک درود ہے
میں خیر مانگتا ہوں مجھے مرا دیجئے
غزل
کافر ہوں سر پھرا ہوں مجھے مار دیجئے
احمد فرہاد