کافی نہیں خطوط کسی بات کے لئے
تشریف لائیے گا ملاقات کے لئے
دنیا میں کیا کسی سے کسی کو غرض نہیں
ہر کوئی جی رہا ہے فقط ذات کے لئے
ہم بارگاہ ناز میں اس بے نیاز کی
پیدا کئے گئے ہیں شکایات کے لئے
ہیں پتھروں کی زد پہ تمہاری گلی میں ہم
کیا آئے تھے یہاں اسی برسات کے لئے
اپنی طرف سے کچھ بھی انہوں نے نہیں کہا
ہم نے جواب صرف سوالات کے لئے
روشن کرو نہ شام سے پہلے چراغ جام
دن کے لئے یہ چیز ہے یا رات کے لئے
مہنگائی راہ راست پہ لے آئی کھینچ کر
بچتی نہیں رقم بری عادات کے لئے
کرنے کے کام کیوں نہیں کرتے شعورؔ تم
کیا زندگی ملی ہے خرافات کے لئے
غزل
کافی نہیں خطوط کسی بات کے لئے
انور شعور