کعبہ و دیر میں جلوہ نہیں یکساں ان کا
جو یہ کہتے ہیں ٹٹولے کوئی ایماں ان کا
جستجو کے لیے نکلے گا جو خواہاں ان کا
گھر بتا دے گا کوئی مرد مسلماں ان کا
تو نے دیدار کا جن جن سے کیا ہے وعدہ
ہائے رے ان کی خوشی ہائے رے ارماں ان کا
اپنے مٹنے کا سبب میں بھی بتا دوں اے شوق
کاش چھو جائے مری خاک سے داماں ان کا
چھوڑ کر آئے ہیں جو صبح وطن سی شے کو
مرتبہ کچھ تو سمجھ شام غریباں ان کا
جن کی آغوش تصور میں ہے وہ حور جمال
کہیں سچ ہو نہ یہی خواب پریشاں ان کا
جو اس الجھاؤ کے خود ہیں متمنی دل سے
کیا بگاڑے گی تری زلف پریشاں ان کا
سر میں سودائے خرد پاؤں میں زنجیر شکوک
بھید پائے گا نہ اس شکل سے انساں ان کا
ہم دعا دیں تجھے دل کھول کے اے پہلوئے تنگ
ٹوٹ کر سینہ میں رہ جائے جو پیکاں ان کا
چاک کرنے کا ہے الزام مرے سر ناحق
ہاتھ ان کے ہیں ہم ان کے ہیں گریباں ان کا
وہ مٹا کیوں نہیں دیتے مجھے حیرت تو یہ ہے
ان کے کہنے میں ہے دل دل میں ہے ارماں ان کا
ان شہیدان محبت میں تو میں صاف کہوں
کوئی اتنا نہیں پکڑے جو گریباں ان کا
وہی ایسے ہیں کہ خاموش ہیں سب کی سن کر
سب کو دعوا ہے کہ ہوں بندۂ فرماں ان کا
پہلے ہم نیت خالص سے وضو تو کر لیں
ٹھہر اے خاک ٹھہر پاک ہے داماں ان کا
چاہیں دوزخ میں اتاریں کہ جگہ خلد میں دیں
دخل کیا غیر کو گھر ان کے ہیں مہماں ان کا
کہیں پیوند کی کوشش کہیں تدبیر رفو
جامۂ تن سے بہت تنگ ہے عریاں ان کا
کیجیے شانہ و آئینہ کی حالت پہ نگاہ
سینہ صدچاک کوئی ہے کوئی حیراں ان کا
مان لو پاؤں سے زنجیر بھی اتری لیکن
بھاگ کر جائے کہاں قیدئ زنداں ان کا
جن شہیدوں نے بہ صد درد تڑپ کر دی جان
چھن گیا ہاتھ سے جیتا ہوا میداں ان کا
ہم تو کیا چیز ہیں جبریل تو جا لیں ان تک
روک لیتا ہے فرشتوں کو بھی درباں ان کا
مست جاتے ہیں خرابات سے مسجد کی طرف
راہ پر شور ہے اللہ نگہباں ان کا
ہم شب ہجر کے جاگے نہ قیامت میں اٹھیں
جب تلک خواب سے چونکائے نہ ارماں ان کا
وہم تو ہی خلل انداز ہوا ہے ورنہ
کون جویا نہیں اے رہزن ایماں ان کا
دن قیامت کا ڈھلا سب نے مرادیں پائیں
رہ گیا دیکھ کے منہ تابع فرماں ان کا
مرنے والوں کا اگر ساتھ دیا پورا کر
لے جنازہ بھی اٹھا حسرت و ارماں ان کا
حق جتاتے ہیں شہیدان محبت بے کار
کیا یہ مرنا تھا بڑا کار نمایاں ان کا
شادؔ گھبرا گیا اک عمر سے جیتے جیتے
وہ بلا لیں مجھے اس وقت تو احساں ان کا
غزل
کعبہ و دیر میں جلوہ نہیں یکساں ان کا
شاد عظیم آبادی