جوئے رواں ہوں ٹھہرا سمندر نہیں ہوں میں
جو نسب ہو چکا ہو وہ پتھر نہیں ہوں میں
سورج کا قہر دیکھیے مجھ پر کہ آج تک
خود اپنے سائے کے بھی برابر نہیں ہوں میں
میں پگھلا جا رہا ہوں بدن کے الاؤ میں
اور کہہ رہا ہوں موم کا پیکر نہیں ہوں میں
مٹی سفر کی پیروں میں آنکھوں میں ایک خواب
ٹھہروں کہاں کہ میل کا پتھر نہیں ہوں میں
دن بھر کی بھوکی پیاسی چلی آ رہی ہے رات
کس دل سے عذر کر دوں کہ گھر پر نہیں ہوں میں
بوڑھی روایتوں سے بھرے ایک شہر میں
یوں بس گیا ہوں جیسے کہ بے گھر نہیں ہوں میں
غزل
جوئے رواں ہوں ٹھہرا سمندر نہیں ہوں میں
آفتاب شمسی