جستجو میری کہیں تھی اور میں بھٹکا کہیں
مل گئی منزل مجھے تو کھو گیا رستا کہیں
پوچھتا رہتا ہوں خود سے کیا اسے دیکھا کہیں
آئنے کے زاویوں میں کھو گیا چہرہ کہیں
مجھ کو مت روکو کہ میں اتنا تھکن سے چور ہوں
پھر ٹھہر ہی جاؤں گا میں اب اگر ٹھہرا کہیں
مدتوں کے بعد پھر نم ہو گئیں آنکھیں مری
پھر مرے احساس کے پتھر میں دل دھڑکا کہیں
ٹوٹ کر چاہا تجھے لیکن یہ حسرت رہ گئی
تجھ سے دل کی بات کہتے تو اگر ملتا کہیں
میں کسی صورت نکل آیا ہوں اپنی ذات سے
ڈر رہا ہوں مل نہ جائے پھر وہی دنیا کہیں
ایک ہی رفتار سے کشتی کو مت کھینا یہاں
وقت کا دریا کہیں اتھلا ہے تو گہرا کہیں
کیوں دلاسا دے رہے ہو منتشر کرنے کے بعد
ٹوٹ کر پھر شاخ سے جڑتا ہے اک پتا کہیں
غزل
جستجو میری کہیں تھی اور میں بھٹکا کہیں
بھارت بھوشن پنت