جستجو جس کی تھی اس کو تو نہ پایا ہم نے
اس بہانے سے مگر دیکھ لی دنیا ہم نے
سب کا احوال وہی ہے جو ہمارا ہے آج
یہ الگ بات کہ شکوہ کیا تنہا ہم نے
خود پشیمان ہوئے نے اسے شرمندہ کیا
عشق کی وضع کو کیا خوب نبھایا ہم نے
کون سا قہر یہ آنکھوں پہ ہوا ہے نازل
ایک مدت سے کوئی خواب نہ دیکھا ہم نے
عمر بھر سچ ہی کہا سچ کے سوا کچھ نہ کہا
اجر کیا اس کا ملے گا یہ نہ سوچا ہم نے
غزل
جستجو جس کی تھی اس کو تو نہ پایا ہم نے
شہریار