جرأت اظہار سے روکے گی کیا
مصلحت میرا قلم چھینے گی کیا
میں مسافر دن کی جلتی دھوپ کا
رات میرا درد پہچانے گی کیا
بے کراں ہوں میں سمندر کی طرح
موج شبنم قد مرا ناپے گی کیا
چل پڑا ہوں سر پہ لے کر آسماں
پاؤں کے نیچے زمیں ٹھہرے گی کیا
شہر گل کی رہنے والی آگہی
مرے زخموں کی زباں سمجھے گی کیا
چہرہ چہرہ عالم بے چہرگی
دیکھ کر بھی زندگی دیکھے گی کیا
میں تو لوگو سہہ لوں ہر پتھر کا جبر
وقت کی شیشہ گری سوچے گی کیا
حسرتوں کی آنچ میں اس کو تپا
یوں بدن کی تیرگی پگھلے گی کیا
نطق سے لب تک ہے صدیوں کا سفر
خامشی یہ دکھ بھلا جھیلے گی کیا
کیا توقع کور ذہنوں سے فضاؔ
کوئلوں سے روشنی پھوٹے گی کیا
غزل
جرأت اظہار سے روکے گی کیا
فضا ابن فیضی