جنوں تو ہے مگر آؤ جنوں میں کھو جائیں
کسی کو اپنا بنائیں کسی کے ہو جائیں
جگر کے داغ کوئی کم ہیں روشنی کے لیے
میں جاگتا ہوں ستاروں سے کہہ دو سو جائیں
طلوع صبح غم زندگی کو ضد یہ ہے
کہ میرے خواب کے لمحے غروب ہو جائیں
یہ سوگوار سفینہ بھی رہ کے کیا ہوگا
اسے بھی آ کے مرے ناخدا ڈبو جائیں
صدی صدی کے اجالوں سے بات ہوتی ہے
ترے خیال کے ماضی میں کیوں نہ کھو جائیں
ہم اہل درد چمن میں اسی لیے آئے
کہ آنسوؤں سے زمین چمن بھگو جائیں
کسی کی یاد میں آنکھیں ہیں ڈبڈبائی ہوئی
شمیمؔ بھیگ چلی رات آؤ سو جائیں
غزل
جنوں تو ہے مگر آؤ جنوں میں کھو جائیں
شمیم کرہانی