جنوں تبدیلی موسم کا تقریروں کی حد تک ہے
یہاں جو کچھ نظر آتا ہے تصویروں کی حد تک ہے
غبار آثار کرتی ہے مسافر کو سبک گامی
طلسم منزل ہستی تو رہ گیروں کی حد تک ہے
زمانے تو نے غم کو بھی نمائش کر دیا آخر
نشاط گریہ و ماتم بھی زنجیروں کی حد تک ہے
غزل
جنوں تبدیلی موسم کا تقریروں کی حد تک ہے
سلیم کوثر