EN हिंदी
جنوں پہ عقل کا سایا ہے دیکھیے کیا ہو | شیح شیری
junun pe aql ka saya hai dekhiye kya ho

غزل

جنوں پہ عقل کا سایا ہے دیکھیے کیا ہو

ضیا فتح آبادی

;

جنوں پہ عقل کا سایا ہے دیکھیے کیا ہو
ہوس نے عشق کو گھیرا ہے دیکھیے کیا ہو

گئی بہار مگر آج بھی بہار کی یاد
دل حزیں کا سہارا ہے دیکھیے کیا ہو

خموش شمع محبت ہے پھر بھی حسن کی ضو
گلوں سے تا بہ ثریا ہے دیکھیے کیا ہو

شب فراق کی بڑھتی ہوئی سیاہی میں
خدا کو میں نے پکارا ہے دیکھیے کیا ہو

وہی جفاؤں کا عالم وہی ہے مشق ستم
وہی وفا کا تقاضا ہے دیکھیے کیا ہو

غم بتاں میں کٹی عمر اور اب دل کو
شکایت غم دنیا ہے دیکھیے کیا ہو

ہزار بار ہی دیکھا ہے سوچنے کا مآل
ہزار بار ہی سوچا ہے دیکھیے کیا ہو

مرا شباب ترا حسن اور سایۂ ابر
شراب‌ و شعر مہیا ہے دیکھیے کیا ہو

ضیاؔ جو پی کے نہ بہکا وہ رند مستی کوش
پئے بغیر بہکتا ہے دیکھیے کیا ہو