EN हिंदी
جنوں میں مشق تصور بڑھا رہا ہوں میں | شیح شیری
junun mein mashq-e-tasawwur baDha raha hun main

غزل

جنوں میں مشق تصور بڑھا رہا ہوں میں

محمد ایوب ذوقی

;

جنوں میں مشق تصور بڑھا رہا ہوں میں
وہ پاس آئے تو اب دور جا رہا ہوں میں

فضائے گلشن ہستی پہ چھا رہا ہوں میں
ترے کرم کا کرشمہ دکھا رہا ہوں میں

وہ چار تنکے جنہیں برق بھی جلا نہ سکے
انہیں سے اپنا نشیمن بنا رہا ہوں میں

ہے آدمی کا مقدر خود اس کے ہاتھوں میں
کچھ اس فریب میں بھی مبتلا رہا ہوں میں

ابھر رہے ہیں فسانے حقیقتیں بن کر
حقیقتوں کو فسانے بنا رہا ہوں میں

کچھ اور قصۂ دار و رسن سنا واعظ
کہ اس خیال سے تسکین پا رہا ہوں میں

وہ اک نظر کہ جسے جان مدعا کہیے
اسی نظر کو تری ڈھونڈھتا رہا ہوں میں

نہیں ہوں مصلحت اندیش حق بیانی میں
یہی ہے جرم سزا جس کی پا رہا ہوں میں

سمجھ چکا ہوں حقیقت حیات فانی کی
وفور غم میں بھی اب مسکرا رہا ہوں میں

کمال فیض محبت نہیں تو پھر کیا ہے
کہ ذرے ذرے میں اب ان کو پا رہا ہوں میں

انہیں بایں خرد و ہوش پا سکا نہ کبھی
متاع ہوش و خرد کھو کے پا رہا ہوں میں

رہ مجاز و حقیقت کے موڑ پر ذوقیؔ
کھڑا ہوا ہوں مگر لڑکھڑا رہا ہوں میں