EN हिंदी
جنوں میں گم ہوئے ہشیار ہو کر | شیح شیری
junun mein gum hue hoshyar ho kar

غزل

جنوں میں گم ہوئے ہشیار ہو کر

صبا اکبرآبادی

;

جنوں میں گم ہوئے ہشیار ہو کر
ہمیں نیند آ گئی بیدار ہو کر

متاع اصل ہاتھوں سے گنوا دی
خراب اندک و بسیار ہو کر

ہمیں نے کی تھی صیقل اس نظر پر
ہمیں پر گر پڑی تلوار ہو کر

جو غنچہ سو رہا تھا شاخ گل پر
پریشاں ہو گیا بیدار ہو کر

در مقصود بس اک دو قدم تھا
کہ رشتہ رہ گیا دیوار ہو کر

نہ آئے ہوش میں دیوانہ کوئی
بہت دکھ پائے گا ہشیار ہو کر

صباؔ مے ہے نہ ساقی ہے نہ ساغر
یہ دن بھی دیکھیے مے خوار ہو کر