جنوں میں گم ہوئے ہشیار ہو کر
ہمیں نیند آ گئی بیدار ہو کر
متاع اصل ہاتھوں سے گنوا دی
خراب اندک و بسیار ہو کر
ہمیں نے کی تھی صیقل اس نظر پر
ہمیں پر گر پڑی تلوار ہو کر
جو غنچہ سو رہا تھا شاخ گل پر
پریشاں ہو گیا بیدار ہو کر
در مقصود بس اک دو قدم تھا
کہ رشتہ رہ گیا دیوار ہو کر
نہ آئے ہوش میں دیوانہ کوئی
بہت دکھ پائے گا ہشیار ہو کر
صباؔ مے ہے نہ ساقی ہے نہ ساغر
یہ دن بھی دیکھیے مے خوار ہو کر

غزل
جنوں میں گم ہوئے ہشیار ہو کر
صبا اکبرآبادی