EN हिंदी
جنوں کی دستگیری کس سے ہو گر ہو نہ عریانی (ردیف .. ر) | شیح شیری
junun ki dast-giri kis se ho gar ho na uryani

غزل

جنوں کی دستگیری کس سے ہو گر ہو نہ عریانی (ردیف .. ر)

مرزا غالب

;

جنوں کی دستگیری کس سے ہو گر ہو نہ عریانی
گریباں چاک کا حق ہو گیا ہے میری گردن پر

بہ رنگ کاغذ آتش زدہ نیرنگ بیتابی
ہزار آئینہ دل باندھے ہے بال یک تپیدن پر

فلک سے ہم کو عیش رفتہ کا کیا کیا تقاضا ہے
متاع بردہ کو سمجھے ہوئے ہیں قرض رہزن پر

ہم اور وہ بے سبب رنج آشنا دشمن کہ رکھتا ہے
شعاع مہر سے تہمت نگہ کی چشم روزن پر

فنا کو سونپ گر مشتاق ہے اپنی حقیقت کا
فروغ طالع خاشاک ہے موقوف گلخن پر

اسدؔ بسمل ہے کس انداز کا قاتل سے کہتا ہے
کہ مشق ناز کر خون دو عالم میری گردن پر

فسون یک دلی ہے لذت بیداد دشمن پر
کہ وجد برق جوں پروانہ بال افشاں ہے خرمن پر

تکلف خار خار التماس بے قراری ہے
کہ رشتہ باندھتا ہے پیرہن انگشت سوزن پر

یہ کیا وحشت ہے اے دیوانہ پیش از مرگ واویلا
رکھی بیجا بنائے خانۂ زنجیر شیون پر