جنوں کی آبیاری کر رہا ہوں
میں وحشت خود پہ طاری کر رہا ہوں
چھپا کر زخم اپنے قہقہوں میں
غموں کی پردہ داری کر رہا ہوں
یہ دنیا ہے بھلا کب میرا مسکن
یہاں تو شب گزاری کر رہا ہوں
حقیقت میں یہ اک بنجر زمیں تھی
میں جس پر کاشتکاری کر رہا ہوں
زمیں دو گز نہیں ہے پاس اور میں
فلک پر دعوے داری کر رہا ہوں
بدن خود ہو رہا ہے میرا زخمی
میں کس پر سنگ باری کر رہا ہوں
انہی امراض میں خود ہوں ملوث
میں فتوے جن پہ جاری کر رہا ہوں
فلک والے تو ہوں گے ہی مخالف
زمیں والوں سے یاری کر رہا ہوں
کہاں تم بھی عبادت کر رہے ہو
اگر میں دنیا داری کر رہا ہوں
معطر ہے بدن خوشبو سے میرا
گلوں کی آبیاری کر رہا ہوں
یہ مانا خاک کا ذرہ ہوں عادلؔ
ہواؤں پر سواری کر رہا ہوں
غزل
جنوں کی آبیاری کر رہا ہوں
کامران عادل