EN हिंदी
جنوں کے ولولے جب گھٹ گئے دل میں نہاں ہو کر | شیح شیری
junun ke walwale jab ghuT gae dil mein nihan ho kar

غزل

جنوں کے ولولے جب گھٹ گئے دل میں نہاں ہو کر

نظم طبا طبائی

;

جنوں کے ولولے جب گھٹ گئے دل میں نہاں ہو کر
تو اٹھے ہیں دھواں ہو کر گرے ہیں بجلیاں ہو کر

کچھ آگے بڑھ چلے سامان راحت لا مکاں ہو کر
فلک پیچھے رہا جاتا ہے گرد کارواں ہو کر

کسی دن تو چلے اے آسماں باد مراد ایسی
کہ اتریں کشتئ مے پر گھٹائیں بادباں ہو کر

نہ جانے کس بیاباں مرگ نے مٹی نہیں پائی
بگولے جا رہے ہیں کارواں در کارواں ہو کر

وفور ضبط سے بیتابیٔ دل بڑھ نہیں سکتی
گلے تک آ کے رہ جاتے ہیں نالے ہچکیاں ہو کر

گلو گیر اب تو ایسا انقلاب رنگ عالم ہے
کہ نغمے نکلے منقار عنادل سے فغاں ہو کر

جو ہو کر ابر سے مایوس خود سینچے کبھی دہقاں
جلا دیں کھیت کو پانی کی لہریں بجلیاں ہو کر

جہاں میں واشد خاطر کے ساماں ہو گئے لاشے
جگہ راحت کی نا ممکن ہوئی ہے لا مکاں ہو کر

ہنسے کوئی نہ بجلی کے سوا اس دار ماتم میں
اگر رہ جائے سارا کھیت کشت زعفراں ہو کر

الم میں آشیاں کے اس قدر تنکے چنے میں نے
کہ آخر باعث تسکیں ہوے ہیں آشیاں ہو کر

گھٹائیں گھر کے کیا کیا حسرت فرہاد پر روئیں
چمن تک آ گئیں نہریں پہاڑوں سے رواں ہو کر

دل شیدا نے پایا عشق میں معراج کا رتبہ
یہاں اکثر بتوں کے ظلم ٹوٹے آسماں ہو کر

جو ڈرتے ڈرتے دل سے ایک حرف شوق نکلا تھا
وہ اس کے سامنے آیا زباں پر داستاں ہو کر

نکل آئے ہیں ہر اقرار میں انکار کے پہلو
بنا دیتی ہیں حیراں تیری باتیں مکر یاں ہو کر

نزاکت کا یہ عالم پھول بھی توڑے تو بل کھا کر
نہ جانے دل مرا کس طرح توڑا پہلواں ہو کر

تدرو و کبک پر ہنس کر اٹھے خود لڑکھڑاتے ہیں
سبک کرتے ہیں ان کو پائنچے بار گراں ہو کر

گلا گھونٹا ہے ضبط غم نے کچھ ایسا کہ مشکل ہے
کہ نکلے منہ سے آواز شکست دل فغاں ہو کر

پتہ اندیشۂ سالک نے پایا منزل دل کا
تو پلٹا لا مکاں سے آسماں در آسماں ہو کر

ہوئی پھر دیکھیے آ بستن شادی و غم دنیا
ابھی پیدا ہوئے تھے رنج و راحت تو اماں ہو کر

جو نکلی ہوگی کوئی آرزو تو یہ بھی نکلے گا
تمہارا تیر حسرت بن گیا دل میں نہاں ہو کر

اتر جائے گا تو او آفتاب حسن کوٹھے سے
گرے گا سایۂ دیوار ہم پر آسماں ہو کر