جنوں کے جوش میں انسان رسوا ہو ہی جاتا ہے
گریباں پھاڑنے سے فاش پردا ہو ہی جاتا ہے
محبت خوف رسوائی کا باعث بن ہی جاتی ہے
طریق عشق میں اپنوں سے پردا ہو ہی جاتا ہے
جوانی وصل کی لذت پہ راغب کر ہی دیتی ہے
تمہیں اس بات کا غم کیوں ہے ایسا ہو ہی جاتا ہے
بگڑتے کیوں ہو آپس میں شکایت کر ہی لیتے ہیں
عدو کا تذکرہ دشمن کا چرچا ہو ہی جاتا ہے
تمہاری نرگس بیمار اچھا کر ہی دیتی ہے
جسے تم دیکھ لیتے ہو وہ اچھا ہو ہی جاتا ہے
اکیلا پا کے ان کو عرض مطلب کر ہی لیتا ہوں
نہ چاہوں تو بھی اظہار تمنا ہو ہی جاتا ہے
مرا دعوئ عشق اغیار باطل کر ہی دیتے ہیں
جسے جھوٹا بنا لیں یار جھوٹا ہو ہی جاتا ہے
بتان بے وفا مضطرؔ دل و دیں کر ہی لیتے ہیں
تمہیں پر کچھ نہیں موقوف ایسا ہو ہی جاتا ہے
غزل
جنوں کے جوش میں انسان رسوا ہو ہی جاتا ہے
مضطر خیرآبادی