جنوں کا دور ہے کس کس کو جائیں سمجھانے
ادھر بھی ہوش کے دشمن ادھر بھی دیوانے
کرم کرم ہے تو ہے فیض عام اس کا شعار
یہ دشت ہے وہ گلستاں سحاب کیا جانے
کسی میں دم نہیں اہل ستم سے کچھ بھی کہے
ستم زدوں کو ہر اک آ رہا ہے سمجھانے
بشر کے ذوق پرستش نے خود کیے تخلیق
خدا و کعبہ کہیں اور کہیں صنم خانے
الجھ کے رہ گئی حسن نقاب میں جو نظر
وہ حسن جلوۂ زیر نقاب کیا جانے
اس ارتقائے تمدن کو کیا کہوں ملاؔ
ہیں شمعیں شوخ تر آوارہ تر ہیں پروانے
غزل
جنوں کا دور ہے کس کس کو جائیں سمجھانے
آنند نرائن ملا