جنون شوق محبت کی آگہی دینا
خودی بھی جس پہ ہو قرباں وہ بے خودی دینا
نہ شور چاہئے دریا کی تند موجوں کا
مرے لہو کو سمندر کی خامشی دینا
تو دے نہ دے مرے لب کو شگفتگی گل کی
جو دے سکے تو شگوفے کی بیکلی دینا
شناخت جس سے زمانے میں آدمی کی ہے
یہ التجا ہے کہ تو مجھ کو وہ خودی دینا
جھکا سکے نہ مرا سر کوئی بھی قدموں پر
جو ہو سکے تو مجھے تو وہ سرکشی دینا
نقاب الٹ دے جو بڑھ کر رخ تمنا سے
یہ آرزو ہے کہ مجھ کو وہ تشنگی دینا
نئی جہات سے فن کو جو آشنا کر دے
مرے قلم کو خدایا وہ کج روی دینا
غزل
جنون شوق محبت کی آگہی دینا
علقمہ شبلی