EN हिंदी
جنون عشق کی یہ فتنہ سامانی نہیں جاتی | شیح شیری
junun-e-ishq ki ye fitna-samani nahin jati

غزل

جنون عشق کی یہ فتنہ سامانی نہیں جاتی

ممتاز احمد خاں خوشتر کھنڈوی

;

جنون عشق کی یہ فتنہ سامانی نہیں جاتی
نہیں جاتی ہماری چاک دامانی نہیں جاتی

مصیبت یوں کبھی دنیا میں پہچانی نہیں جاتی
نہیں آتی بلا جو سر پہ وہ مانی نہیں جاتی

گمان بد نہ کر اے محتسب رندوں کی حالت پر
کہ ہو کر چاک دامن پاک دامانی نہیں جاتی

نہیں مرتا کبھی گو بوالہوس ہر اک پہ مرتا ہے
نہیں جاتی سبک سر کی گراں جانی نہیں جاتی

زیادہ دور ساحل تو نہیں کچھ بحر ہستی کا
مگر کشتی کدھر جائے کہ طغیانی نہیں جاتی

ہمارے گھر کی ویرانی سے ہے دل بستگی اس کو
تم آ کر جب چلے جاتے ہو ویرانی نہیں جاتی

تماشا دیکھنے والے تو لاکھوں آتے جاتے ہیں
وہی جلوے ہیں جلووں کی فراوانی نہیں جاتی

تری تصویر آئینہ ہے میری چشم حیرت کا
نہیں جاتی ان آئینوں کی حیرانی نہیں جاتی

ابھی نظروں میں پھرتا ہے وہ بزم ناز کا منظر
مرے دل سے ترے جلووں کی ارزانی نہیں جاتی

حجابات جہاں سے ہر ادا چھن چھن کی آتی ہے
غرض پردے سے ان کی جلوہ سامانی نہیں جاتی

مجھے سمجھا رہے ہیں آپ کیا اے ناصح مشفق
محبت میں کسی کی بات ہی مانی نہیں جاتی

رہے گا شاعری کا نام خوشترؔ رہتی دنیا تک
سخن جوئی سخن گوئی سخن دانی نہیں جاتی