جنون عشق کا جو کچھ ہوا انجام کیا کہئے
کسی سے اب یہ روداد دل ناکام کیا کہئے
پھری کیوں کر نگاہ ساقیٔ گلفام کیا کہئے
بھری محفل میں اسباب شکست جام کیا کہئے
یہ کیسی دل میں ہے اک ظلمت بے نام کیا کہئے
بجھا کیوں دفعتاً از خود چراغ شام کیا کہئے
تغافل پر وہ دو حرف شکایت بھی قیامت تھے
زمانے بھر کے ہم پر آ گئے الزام کیا کہئے
مرا درد نہاں بھی آج رسوائے زمانہ ہے
اک آہ زیر لب بھی بن گئی دشنام کیا کہئے
در و دیوار پر چھائے ہوئے ہیں یاس کے منظر
دیار نامرادی کے یہ صبح و شام کیا کہئے
جہان آرزو بھی رفتہ رفتہ ہو چلا ویراں
اک آغاز حسیں کا آہ یہ انجام کیا کہئے
امید و یاس میں یہ روز و شب کی کشمکش توبہ
بہر لمحہ فریب گردش ایام کیا کہئے
یہ کس کے در سے طعنے مل رہے ہیں سجدہ و سر کو
یہ کس در پر ہے ذوق بندگی بدنام کیا کہئے
کہاں کا شکوۂ غم ہم تو بس شکر ستم کرتے
مگر شکر ستم کا بھی ہے جو انجام کیا کہئے
ادائے بدگمانی بھی سرشت عشق ہے لیکن
یہ کیوں کر بن گئی منجملۂ الزام کیا کہئے
رہیں گے حشر تک ممنون احسان دل آزاری
خلوص عشق پر یہ قیمتی انعام کیا کہئے
بڑھی جاتی ہے اب تو اور بھی کچھ دورئ منزل
اچانک نو بہ نو دشوارئی ہر گام کیا کہئے
وہ اپنی سعئ تجدید جنوں بھی رائیگاں ٹھہری
بس اب آگے مآل حسرت ناکام کیا کہئے
نہ سمجھے آج تک رنگ مزاج یار بے پروا
مگر پھر بھی زباں پر ہے اسی کا نام کیا کہئے
غزل
جنون عشق کا جو کچھ ہوا انجام کیا کہئے
اخگر مشتاق رحیم آبادی