جنبش میں زلف پر شکن ایک اس طرف ایک اس طرف
گردش میں چشم سحر فن ایک اس طرف ایک اس طرف
عارض پہ زلف پر شکن ایک اس طرف ایک اس طرف
ہیں آج دو سورج گہن ایک اس طرف ایک اس طرف
مطلب اشاروں سے کہا میں ان اشاروں کے فدا
آنکھیں بھی ہیں گرم سخن ایک اس طرف ایک اس طرف
جس دم سکندر مر گیا حال تہی دستی کھلا
تھے ہاتھ بیرون کفن ایک اس طرف ایک اس طرف
جائے گا دو ہو کر یہ دل آدھا ادھر آدھا ادھر
کھینچے گی زلف پر شکن ایک اس طرف ایک اس طرف
غیروں سے کھیل کھیلو نہ تم کر دیں گے رسوا حشر میں
ہیں دو فرشتے جان من ایک اس طرف ایک اس طرف
عارض پہ سمٹے خودبخود زلفوں کے گھونگر والے بال
ہے نافۂ مشک ختن ایک اس طرف ایک اس طرف
شیریں کا خواہاں حشر میں خسرو بھی ہے فرہاد بھی
کھینچیں گے دونوں پیرہن ایک اس طرف ایک اس طرف
گھونگٹ جو گالوں سے اٹھا تار نظارہ جل گیا
سورج تھے دو جلوہ فگن ایک اس طرف ایک اس طرف
قاتل ادھر جراح ادھر میں نیم بسمل خاک پر
اک تیر کش اک تیر زن ایک اس طرف ایک اس طرف
آنکھوں کے اندر جائے غیر آنکھوں کے اوپر ہے نقاب
خلوت میں ہیں دو انجمن ایک اس طرف ایک اس طرف
وہ ہاتھا پائی ہم نے کی بستر پہ ٹوٹے اور گرے
بازو کے دونوں نورتن ایک اس طرف ایک اس طرف
پیش خدا روز جزا میں بھی ہوں چپ قاتل بھی چپ
گویا کھڑے ہیں بے دہن ایک اس طرف ایک اس طرف
رخسار پر خط کا نشاں گل پر ہوا سبزہ عیاں
ہیں دونوں عارض دو چمن ایک اس طرف ایک اس طرف
کافر بھی ہوں مومن بھی ہوں جلنا بھی ہے گڑنا بھی ہے
کھینچیں گے شیخ و برہمن ایک اس طرف ایک اس طرف
گھبرا نہ جائیں دل جگر ہے بند تربت میں ہوا
پنکھے ہوں دو نزد کفن ایک اس طرف ایک اس طرف
یا رب اٹھوں جب قبر سے دو بت رہیں ہم رہ مرے
غارت گر ہند و دکن ایک اس طرف ایک اس طرف
کہتے ہیں انمول اس کو سب کہتے ہیں کچھ گول اس کو سب
کیا چیز ہے اے جان من ایک اس طرف ایک اس طرف
جنت کی حوریں آئیں ہیں مائلؔ دبانے میرے پاؤں
بیٹھی ہیں نزدیک کفن ایک اس طرف ایک اس طرف
غزل
جنبش میں زلف پر شکن ایک اس طرف ایک اس طرف
احمد حسین مائل