جدا اس جسم سے ہو کر کہیں تحلیل ہو جاتا
فنا ہوتے ہی لافانی میں میں تبدیل ہو جاتا
مرے پیچھے اگر ابلیس کو آنے نہ دیتا تو
سراپا میں ترے ہر حکم کی تعمیل ہو جاتا
جو ہوتا اختیار اپنے مقدر کو بدلنے کا
تمناؤں کی میں اک صورت تکمیل ہو جاتا
مجھے پہچان کر کوئی زمانے کو بتا دیتا
تو مثل نکہت گلزار میں ترسیل ہو جاتا
کرشمہ یہ بھی ہو جاتا ترے ادنیٰ تعاون سے
مجھے تو سوچتا تو میں تری تخئیل ہو جاتا
زمیں پیاسی ضمیرؔ انسان بھی پیاسے نہیں رہتے
اگر دریا میں بن جاتا اگر میں جھیل ہو جاتا
غزل
جدا اس جسم سے ہو کر کہیں تحلیل ہو جاتا
ضمیر اترولوی