جدا رہتا ہوں میں تجھ سے تو دل بے تاب رہتا ہے
چمن سے دور رہ کے پھول کب شاداب رہتا ہے
اندھیرے اور اجالے کی کہانی صرف اتنی ہے
جہاں محبوب رہتا ہے وہیں مہتاب رہتا ہے
مقدر میں لکھا کر لائے ہیں ہم بوریا لیکن
تصور میں ہمیشہ ریشم و کمخواب رہتا ہے
ہزاروں بستیاں آ جائیں گی طوفان کی زد میں
مری آنکھوں میں اب آنسو نہیں سیلاب رہتا ہے
بھلے لگتے ہیں اسکولوں کی یونیفارم میں بچے
کنول کے پھول سے جیسے بھرا تالاب رہتا ہے
یہ بازار ہوس ہے تم یہاں کیسے چلے آئے
یہ سونے کی دکانیں ہیں یہاں تیزاب رہتا ہے
ہماری ہر پریشانی انہی لوگوں کے دم سے ہے
ہمارے ساتھ یہ جو حلقۂ احباب رہتا ہے
بڑی مشکل سے آتے ہیں سمجھ میں لکھنؤ والے
دلوں میں فاصلے لب پر مگر آداب رہتا ہے
غزل
جدا رہتا ہوں میں تجھ سے تو دل بے تاب رہتا ہے
منور رانا